Tuesday 28 February 2017

گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے
ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا

بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا

لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا
جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا

جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا

More from PARVEEN SHAKIR


No comments:

Post a Comment

Celebrate Pakistan Resolution Day with a Breathtaking Air Show! 🇵🇰 ✈️

 Witness the incredible aerial maneuvers of Pakistan's Air Force in my new video! I took you right to the heart of the action at the 202...