Tuesday 28 February 2017

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

More from PARVEEN SHAKIR

قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا

قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا

نکلے اگر تو چاند دریچے میں رک بھی جائے
اس شہر بے چراغ میں کس کا نصیب تھا

آندھی نے ان رتوں کو بھی بے کار کر دیا
جن کا کبھی ہما سا پرندہ نصیب تھا

کچھ اپنے آپ سے ہی اسے کشمکش نہ تھی
مجھ میں بھی کوئی شخص اسی کا رقیب تھا

پوچھا کسی نے مول تو حیران رہ گیا
اپنی نگاہ میں کوئی کتنا غریب تھا

مقتل سے آنے والی ہوا کو بھی کب ملا
ایسا کوئی دریچہ کہ جو بے صلیب تھا

More from PARVEEN SHAKIR

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

زندگی سے کسی سمجھوتے کے با وصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا

اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

اس کا انداز سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی لہجہ وہ مکرنے والا

شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں اک خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا

دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا

اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سر بام ابھرنے والا

More from PARVEEN SHAKIR
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا

گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے
ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا

بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی
حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا

لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا
جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا

جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا
وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا

More from PARVEEN SHAKIR


فطرت کو خرد کے روبرو


فطرت کو خرد کے روبرو

تسخیر مقام رنگ و بو کر



تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر



تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تو بھی یہ مقام آرزو کر



عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں
چاک گل و لالہ کو رفو کر



بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

تو ابھی رہ گزر میں ہے قید_مقام سے گزر

تو ابھی رہ گزر میں ہے قید_مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بام دانہ و دام سے گزر

کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

Friday 24 February 2017

مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوریدینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں




ایک آٹھ سال کا بچہ مسجد کے ایک طرف کونے میں اپنی
چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ

جانے کیا مانگ رہا تھا؟ کپڑوں میں پیوند لگا تھا مگر
نہایت صاف تھے اس کے ننھےننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے بہت سے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے اور وہ بالکل بےخبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ھوا تھا جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کر اسکا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا
اللہ پاک سے کیا مانگ رھے ھو؟ اس نے کہا کہ میرے ابو مر گۓ ھیں ان کےلئے جنت میری امی ہر وقت روتی رہتی ھے اس کے لئے صبر میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ھے اس کے لئے رقم

اجنبی نے سوال کی کیا آب سکول جاتے ھو؟ بچے نے کہا ہاں جاتا ھوں اجنبی نے پوچھا  کس کلاس میں پڑھتے ھو؟

نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا ماں چنے بنا دیتی ھے وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرتا ھوں بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ھیں ہمارا یہی کام دھندا ھے
بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رھا تھا تمہارا کوئ رشتہ دار
اجنبی نہ چاہتے ھوۓ بھی بچے سے پوچھ بیٹھا؟
امی کہتی ھے غریب کا کوئ رشتہ دار نہیں ھوتا امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی لیکن انکل جب ھم  کھانا کھا رہے ھوتےہیں اور میں کہتا ھوں امی آپ بھی کھانا کھاؤ تو وہ کہتی ھیں  میں نے کھالیا ھے اس وقت لگتا ھے وہ جھوٹ بول رھی ھیں.

بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جاۓ تو تم پڑھوگے؟ بچہ:بالکل نہیں

کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ھیں
ہمیں کسی پڑھے ھوۓ نے کبھی نہیں پوچھا پاس سے گزر جاتے ھیں اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی پھر اس نے کہا کہ
ہر روز اسی مسجد میں آتا ھوں
کبھی کسی نے نہیں پوچھا
یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے
مگر
ہمیں کوئی نہیں جانتا
بچہ زور زور سے رونے لگا
انکل جب باپ مر جاتا ھے تو سب اجنبی بن جاتے ھیں
میرے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا

ایسے کتنے معصوم ھوں گے

جو حسرتوں سے زخمی ھیں
بس ایک کوشش کیجۓ

اور
اپنے اردگرد ایسے ضروت مند یتیموں اور بےسہارا کو
ڈھونڈئے
اور ان کی مدد کیجئے

مدرسوں اور مسجدوں میں سیمنٹ یا اناج کی بوری

دینے سے پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں
شاید اسکو آٹے کی بوری زیادہ ضرورت ھو
تصویر یا ویڈیو بھیجنے کی جگہ یہ میسج کم ازکم ایک یا دو گروپ میں ضرور شئیر کریں
خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی کوشش جاری رکھیں.
جزاک اللہ

Celebrate Pakistan Resolution Day with a Breathtaking Air Show! 🇵🇰 ✈️

 Witness the incredible aerial maneuvers of Pakistan's Air Force in my new video! I took you right to the heart of the action at the 202...