اے ا بنِ آدم جواب دوگے؟
By: Samaa Web Desk
تحریر : سیدہ سعدیہ
اے ا بنِ آدم کیا حوا کی بیٹی وہ جس ارزاں ہے کہ جیسے تم گھر میں عزت کی روٹی مُسیر نہ ہونے پر اپنی عزت دار کمائی کے لیے بیچ دو،تم قتل کرو اوراُسے خون بہابنا کر پیش کر دو، اپنے خود ساختہ انا کے لیے سالوں لڑائیاں لڑواور جب ہار جاؤ تو اُسے صلح کا نذرانہ بنا کر پیش کر دو، تم اُسے جانوروں کی طرح بیچو، خریدواور جب وہ تمھاری نام نہادعزت پر اپنی خوشی اور بچاؤ کو فوقیت دے تو اُسے خاندان کے نام پر سیاہ داغ کہہ کر مار ڈالو۔ درجات کی یہ معراج تمھیں کب سُونپی گی کہ اس مسند پر بیٹھ کر تم بیتِ حوا کی موت اور زندگی کے فیصلے کرو۔ کس شریعت اور نظام نے حوا کی بیٹی کی عزت ، وقار اور زندگی کو اتناارزاں کیا کہ کہیں وہ باپ اور بھائی کے ہاتھوں قتل ہوئی ۔ کہیں شیطان صفت ابنِ آدم کے ہاتھوں جلاڈالی گی،کہیں معززین کے فیصلے پر کاری کر دی گئی ، کہیں اُس کی صورت تیزاب سے مسخ کر دی گئی ، مگر ہر بارالزام حوا کی بیٹی کے سر آیا۔
وہ ماری گئی کیوں کہ خاندان کی عزت داؤ پر لگی تھی ، وہ جلادی گئی ، کاری کر دی گئی کیونکہ اُس کی بُرائیاں عزت مندمردوں کی عزت پر سوالیا نشان تھیں، اُسے تیزاب میں نہلا دیا گیاکیو نکہ وہ بدکار تھی ۔ ظلم و بر بریت کی ہر داستان میں بری ہو جانے والا تو بس آدم کا بیٹا ہے، جس کی غیرت اور عزت کا معیار اُس کے ذاتی کردار کی سیاہیاں اور غلاظتیں نہیں بلکہ اُس کی بہن اور بیٹی کے اعمال ہیں۔ تعفن ذرہ شخصیت اورسیاہی میں ڈوبے کردار کے مالک شخص کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آتی بھلے اُس کی ہر شام ، ہر رات مے خانو ں اور مہ جبینوں کے ساتھ گزرے مگر جونہی بات بہن یا بیٹی کی مرضی سے شادی یا تعلیم کی ہواُس کا دامن غیرت تار تار ہونے لگتا ہے ، اُس کی اونچی پگڑی کی شان مٹی میں ملنے لگتی ہے اور پھر وہ اپنی عزت بچانے کے لیے سیاہی کے داغ کو مٹا دیتا ہے، دُنیا اُسے غیر ت مند کہہ کر قتل ہمیشہ کے لیے بھُول۔
خاندان کی عزت کا معیار بیٹیوں کے کردار پر پر کھنے والے عزت کے نام پر اپنا قتل جائز قرار دے دیں تو حلفیہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کردار کی سیاہی اس قدر پھیلی ہے کہ قتل ان کی نسل ختم کر دے۔ اس معاشرے کا مرد ایسی تمام برائیوں کے ساتھ معتبر ہے تو پھر کرا چی کی سمیر ا کی کہانی نئی کیے ہو گئی ، یہ کہانی ،اس کی کردار سب پرانے ہیں ۔ اُس کو قتل کرنے والا بھائی ، قتل کی تائید کرنے والا باپ ، بیٹا اور ماموں سب پرانے قصے کی نئی کڑایاں ہیں۔ سمیرا جیسی کئی بہنیں ماضی میں بھی بد قماش بھائیوں کی غیرت کا نشا نہ نہیں۔اس ملک کے قوانین ہمیشہ بنتِ حوا کی بے بسی اور ابنِ آدم کی شیطان صفت کو ایک ترازو میں رکھ کر تولتے رہے۔
4164ہاں بہن کا قتل بھائی کو اس لیے معاف کر دیا جاتا ہے کہ باپ بیٹی کے قتل کو حق بجانب سمجھتا ہے۔یہاں شوہر اس لیے مظلو م قرار دیا جاتا ہے کہ وہ بیوی کا مختار کل ہے اور یہاں شرمین عبید چنائے کو اس لیے بُرا کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے شیطان صفت ابنِ آدم کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتی ہے۔ دنیا کو دکھاتی ہے کہ دیکھو یہاں عزت کے فیصلے اپنے نہیں بہنوں اور بیٹیوں کے کردار سے ہوتے ہے یہاں عزت کے نام پر قتل کرنے والا مرد معصوم ہے کیونکہ اُس کا عمل گھر کے عزت کے لیے تھا۔
یہاں ابنِ آدم سے سوال پوچھنے والا ہر شخص غلط ہے جو پوچھتا ہے کہ تم چورا ہوں ، گلی ، محلوں میں لوگوں کی بیٹیوں کو گندی نگاہ سے دیکھتے ہوتو کیا اس لیے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کہ پڑھنے یا کام پر نہیں جانے دیتے وہ بھی غلط ہیں جو پوچھتا ہے کہ تم کیوں لوگوں کی بیٹیا ں گھروں سے اُٹھا کر ہوس کا نشانہ بناتے ہو اور پھر جلا ڈالتے ہو ، یہا ں کے سفاک ، جاہل اور بدکردار مرد سے پوچھا گیا ہرال غلط ہے، مگر اے ابنِ آدم جواب دوگے کہ تم رات کوٹھے پر گزار کر بھی معتبر کیوں ٹہرے اور حوا کی بیٹی صرف تمہاری ضد کے آگے ہارنہ مان کر خاندان کے لیے کلنک کا ٹیکہ کیسے بنی۔
No comments:
Post a Comment